FSW Vlog | Whats happening in Sudan?
کیسے ہیں دوستو سوڈان میں 2003 سے لینڈ کروزر وارز جاری ہیں۔ انھیں یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان لڑائیوں میں ٹویٹا لینڈ کروزر کو ہی سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر باغیوں کی طرف سے ایسا ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ کہیں سے بھی یہ لوگ پرانی ٹویٹا لینڈ کروزر امپورٹ کر کے اسے تھوڑا سا تبدیل کر لیتے ہیں۔ یعنی چھت کے اوپر ایک مشین گن اور میگزین فٹ کر دیا جاتا ہے۔ پچھلے کھلے حصے میں ایک گنر کے کھڑا ہونے کی جگہ پہلے سے ہوتی ہے۔ ساتھ میں اس کے باقی ساتھی بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ بس جی گوریلاز کی گاڑی پلس گن ٹرک پلس ٹیکنیکل، پلس ہموی پلس ٹرانسپورٹ ٹرک تیار ہو گیا۔ اب اس پر اوپن میں کھڑا جنگجو تین اطراف میں اندھادھند فائرنگ کر سکتا ہے۔ تھری ڈائمنشنل فائرنگ۔ اوپر بھی کر سکتا ہے فور ڈائمنشنل آج جو سوڈان کے کیپیٹل "خرطوم" میں آپ سول وار دیکھ رہے ہیں جو کبھی بند ہو جاتی ہے کچھ دیر کے لیے صلح ہو جاتی ہے اور پھر شروع ہو جاتی ہے سول وار دو جنرلز کے درمیان تو اس کا آغاز ٹونٹی او تھری میں انھی لینڈ کروزر وارز سے جنھیں آفیشلی "دارفور وارز" کہا جاتا ہے دارفور ریجن سوڈان کا ویسٹرن، مغربی علاقہ ہے۔ کافی گنجان آباد ہے کوئی ایٹ ٹو نائن ملین، اسی سے نوے لاکھ کے قریب لوگ یہاں رہتے ہیں اسے دارفور اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دارِ فور ہے، یعنی فور قبائل کے رہنے کی جگہ در کا مطلب گھر۔ فور لوگوں کے رہنے کی جگہ۔ یہ لوگ افریقی تو ہیں جیسے کہ سارے سوڈان کے لوگ ہیں لیکن یہ عرب نہیں ہیں۔ نان عرب افریقی ہیں۔ اب سوڈان کی لڑائی کو سمجھنے کے لیے یہ سادہ سا پوائنٹ سمجھ لیں۔ سوڈان میں دو قسم کی آبادی ہے۔ ایک 70 فیصد ایفرو عربز یعنی وہ افریقی ہیں جو عربی بولتے ہیں۔ یہ پچھلے سو ڈیڑھ سو سال یا اس سے کچھ پہلے عربی بولنے والے ریجنز سے سعودی عرب سے مصر سے یمن سے سوڈان میں آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کے نین نقش افریقی تو ہیں لیکن ان کا کمپلیکشن تھوڑا عربوں سے ملتا ہے۔ کالونیل دور میں یعنی جب انیس سو چھپن تک یہاں برطانیہ کی حکومت تھی تھوڑا سا مصر کا بھی اثر تھا تو ان لوگوں نے کافی اثرورسوخ حاصل کیا۔ تو یہ ایفرو عربز ایک گروپ ہو گیا۔ اس کے بعد دوسرا گروپ نان عرب افریقنز کا ہے۔ یہ وہ نیٹیو، پرانے افریقی ہیں جو پرانی مقامی زبانیں بولتے ہیں سوڈان میں رہنے کی وجہ سے انھیں کچھ عربی آتی تو ہے کیونکہ یہ وہاں کی قومی زبان ہے لیکن یہ عرب علاقوں سے آئے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ یہی پیدا ہوئے تھے یہی رہتے ہیں ہزاروں سال سے عربی النسل نہیں ہیں۔ یہ لوگ صدیوں سے ہزاروں سال سے افریقہ میں آباد ہیں۔ ان کا کمپلیکشن بھی سیاہ فام ہے لیکن عربی افریقیوں سے کہیں زیادہ الگ ہے۔ ان دنوں گروہوں میں چپقلش اور ماردھاڑ پرانی بات ہے۔ جب فسٹ جنوری نائنٹین ففٹی سکس میں انگریزوں نے اپنا قبضہ ختم کیا تو اب سوڈان میں طاقت ان ستر فیصد عربی بولنے والے افریقیوں کے ہاتھ میں آ گئی کیونکہ ان کی آبادی زیادہ تھی۔ جبکہ نان عرب افریقنز اقلیت میں چلے گئے۔ اقلیت میں آ جانے کی وجہ سے ظاہر ہے ایک احساس محرومی غریب ممالک میں جیسے ہوتا ہے تو وہ اور بھی زیادہ ہو گیا وہ ڈیولپ کرنا شروع ہو گیا۔ پھر یہ ہوا کہ اس میں سے بھی سوڈان کا ویسٹرن ریجن، "دارفور" خاص طور پر اہم ہو گیا۔ وہ اس لیے کہ دارفور میں فور قبیلے کے لوگوں کی صدیوں سے اپنی ایک سلطنت رہی تھی۔ آزاد سلطنت، آزاد ریاست۔ یہ ریاست، آٹومن ایمپائر کی وفادار تھی۔ جب آٹومن ایمپائر ہوتی تھی تب پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے عثمانی ترکوں کا آٹومن ایمپائر کا ساتھ دیا تھا انگریزوں کے خلاف۔ انگریزوں سے جنگ کی تھی آٹومن ایمپائر کی طرف سے اور یہ جنگ ہار گئے تھے۔ آٹومن ایمپائر بھی ہار گئی۔ جس کے جواب میں پھر انگریزوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ ان کے آخری بادشاہ "علی دینار" کو انگریزوں نے قتل کر دیا اور لاش دھوپ میں رکھ دی۔ اس کے بعد اس علاقے کو سوڈان میں شامل کر کے انگریزوں نے پورے سوڈان پر دارفور سمیت قبضہ کر لیا اسی طرح جب سوڈان آزاد ہوا کالونیل دور ختم ہوا، نائنٹین ففٹی سکس میں تو یہ کبھی کا آزاد علاقہ "دارفور" اب نئے سوڈان میں اقلیت بن گیا۔ اب دیکھیں کہ یہاں کے لوگوں کا مائنڈ کیا ہے ایک تو انھیں یہ دکھ کہ کبھی یہ ایک آزاد سلطنت کے باسی تھے اور ان کی اپنی پہچان تھی ایک سلطنت تھی جو دو صدیوں کے قریب چلتی رہی۔ دوسرا ان کا دکھ یہ کہ ان پر عرب افریقی حکمران بن گئے ہیں۔ سو انھوں نے پہلے دن سے ہی آٹونومی کے لیے، نیم خومختاری کے لیے تحریک شروع کر دی۔ اب یاد رکھیں کہ ان کی تحریک کبھی بھی آزادی کے لیے نہیں تھی۔ وہ اپنا دارفور الگ ملک نہیں چاہتے تھے بلکہ صرف خودمختاری چاہتے تھے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے عرب افریقی حکومت اکثر چھوٹے موٹے آپریشن کرتی رہتی تھی۔ جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی رہے۔ کبھی اکانومی کا مسئلہ آ جاتا کبھی پانی نہ پہنچنے کا مسئلہ، کبھی نوکریوں میں حصہ نہ ملنے کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ۔ تو یہاں سے دوستو دارفور کی لڑائیاں سوڈان کی مرکزی حکومت اور فوج سے شروع ہوئیں۔ اس لڑائی میں کبھی شدت آ جاتی کبھی کچھ وقت کے لیے امن قائم ہو جاتا ۔ لیکن دوہزار دو میں یہ ہوا کہ دارفور کی کئی اورگنائزیشنز نے جوائنٹ آپریشنز شروع کر دئیے۔ ان میں خاص طور پر سوڈان لیبریشن موومنٹ اور جسٹس اینڈ ایکولیٹی موومنٹ کے گروپس زیادہ متحرک تھے۔ اس وڈیو میں ہم جب بھی باغی یا گوریلا کہیں تو اس سے مراد یہ دو گروہ اور ان کے ساتھی ہوں گے۔ تو مائی کیورئیس فیلوز، ان باغیوں نے اپنے علاقے دارفور میں عرب افریقیوں کو جو کہ ان کے علاقے دارفور میں کم تعداد میں تھے، انھیں نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ساتھ میں وہ سوڈانی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو پوسٹوں، گیریزنز اور بیرئیرز کو بھی نشانہ بناتے۔ جب یہ ہو رہا تھا تو سوڈان کے طاقتور پریزیڈنٹ عمرالبشیر تھے۔ یہ کبھی سوڈانی فوج میں کرنل ہوا کرتے تھے لیکن نائنٹین ایٹی نائن میں انھوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، فوجی حکومت قائم کی اور 1993 میں ملک کے پریزیڈنٹ بن گئے۔ کرنل بشیر کے لیے اب جنرل بشیر بننا اور فیلڈ مارشل بشیر بننا مشکل نہیں تھا کیونکہ خود ہی تو پروموشن دینا تھی۔ سو صدر بشیر نے کرنل بشیر کو فیلڈ مارشل بشیر بنا دیا۔ ہاں فیلڈ مارشل بننے کے لیے انھوں نے کون سی عالمی جنگ جیتی تھی؟ اس پر تاریخ ابھی خاموش ہے۔ تو خیر دوستو پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر کے اقتدار کو دوہزار تین میں، جس کی کہ ہم کہانی سنا رہے ہیں، دسواں سال تھا۔ انھوں نے دارفور میں حملوں کا جواب دینے کے لیے فوج کو تیار کیا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ تھا۔ وہ یہ کہ دارفور کے جنگجو صحراؤں میں گوریلا وار کے عادی تھے۔ وہ لینڈکروزر وار کے ایکسپرٹ تھے۔ وہ حملہ کرتے اور بھاگ جاتے۔ نیم صحرائی راستوں، جھاڑیوں، ویران سڑکوں جنگلوں کو پھلانگتی لینڈ کروزرز فرار ہو جاتیں۔ جیسا کہ 25 مارچ 2003 میں انھوں نے کیا بھی۔ باغیوں نے سوڈانی فورسز کے گیرزن ٹائن پر قبضہ کیا اور اسلحہ اور گاڑیاں چھین لیں۔ اسی طرح کی درجنوں کارروائیوں سے ان کے پاس اچھا اسلحہ اور ملٹری وہیکلز بھی آ گئیں۔ اس ساری واردات سے سوڈانی حکومت صدر عمرالبشیر کو نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کیونکہ واقعات اس طرح ہو رہے تھے کہ باغیوں نے 38 حملے کیے اور ان میں سے صرف چار کو سوڈانی فورسز ناکام بنا پائیں۔ باقی 34 میں ان کو شکست ہوئی دارفور کے باغیوں نے سوڈانی سیکیورٹی فورسز کا بھرکس نکال دیا۔ اب اس کا جواب کیسے دیا جائے؟ اس کے لیے پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر نے انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر ایک پلاننگ کی اس میں ایک خطرناک فیصلہ کیا۔ وہ یہ کہ دارفور کے نان عرب باغیوں کے خلاف دارفور کی عرب آبادی کو مسلح کیا جائے۔ تا کہ یہ لوگ شہروں اور دیہات میں چھپے باغیوں کی جاسوسی بھی کر سکیں اور ٹھکانوں کا پتا بھی دے سکیں۔ تو دوستو نان عرب باغیوں کے مقابلے میں جن ایفرو عرب جنگجوؤں کو تیار کیا گیا وہ پہلے سے لڑائی بھڑائی میں تاک لوگ تھے بلکہ یہ ایک سے زیادہ چھوٹے چھوٹے گروہ تھے جو لڑائی میں کافی ایکسپرٹ پہلے سے تھے لیکن دارفور کے باغیوں سے کمزور تھے۔ انھیں مقامی زبان میں "جنجووید" کہا جاتا تھا۔ اس کا مطلب ہے گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھے جنگجو۔ کسی زمانے میں یہ عرب جنجووید، ہمسایہ ملک لیبیا میں کرنل قذافی کے لیے کرائے کے فوجی بھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ عرب افریقی گروپس دارفور میں آوارہ گھومتے تھے، لوٹ مار کرتے تھے قبضے کرتے تھے اور مقامی پاور سٹرگل کا ایک حصہ تھے یہ کئی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں رہتے تھے۔ خود بھی ان پڑھ ہوتے تھے اور ان کے سرغنہ بھی زیادہ تر سکولوں سے بھاگے ہوئے نوجوان ہوتے تھے۔ جنجووید لوگوں کے پاس لینڈکروزرز نہیں ہوتی تھیں اسی لیے یہ زیادہ تر پیدل یا جانوروں پر گھومتے تھے۔ یہ کہیں بھی دو تین اونچی جھاڑیوں کے اوپر کالا کپڑا ڈال کر یہ اپنا کیمپ بنا لیتے تھے۔ تو جب گورنمنٹ نے انھیں اپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا تو ان کے لیے یہ ایک پاور گیم میں اوپر آنے کا بہت بڑا راستہ کھل گیا۔ اب یہ اپنے رائیول غیر عرب افریقیوں کی طرح لینڈکروزر بھی لے سکتے تھے اور ان سے بہتر حالت میں لے سکتے تھے۔ اسلحہ اور جنگی آلات بھی بہتر مل سکتے تھے۔ سو انھیں ملنے لگے۔ پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر کے حکم پر آرمی کمانڈرز اور ایک وقت کے بعد جنرل الفتاح برہان نے انھی سے کام لینا شروع کیا۔ کام وہ ان سے یہ لیتے تھے کہ یہ جو جنجوید تھے یہ باغیوں کی جاسوسی کرتے تھے اور سوڈانی فورسز کو ان ٹھکانوں کے بارے میں بتاتے تھے۔ ان کے بتائے ٹھکانوں پر سوڈانی فوج جہازوں سے بمباری کرتی۔ یہ بمباری اس بے رحمی سے کی جاتی تھی کہ نان عرب باغیوں کے پورے پورے محلے اور پورے کے پورے گاؤں جلا کر رکھ دئیے جاتے تھے۔ جو انھیں پناہ دیتا اس کا سارا خاندان اڑا دیا جاتا۔ اب دیکھیں کہ اس فضائی ہتھیار کا تو باغیوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کے ٹھکانے، گاڑیاں اور جنگجو مارے جا رہے تھے۔ یہ صورتحال ان کے لیے صاف موت تھی۔ ایسے میں باغیوں نے ایک پلان بنایا کہ کیوں ناں گیریزن میں کھڑے جہازوں کو ہی تباہ کر دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اپریل 2003 میں بننے والا یہ پلان بہت ہی ایمبیشیس اور خطرناک تھا۔ اس کی کامیابی میں رازداری بہت اہم تھی کیونکہ جب یہ لشکر کی صورت گیریزن پر حملے کرنے کے لیے نکلتے تو کسی بھی راستے کے ناکے سے گیریزن میں اطلاع پہنچ سکتی تھی۔ جس کے بعد ایک اینٹونو بمبر کے ایک درجن بم ہی ان سب کے خاتمے کے لیے کافی ہونا تھے۔ اس خدشے کے باوجود کوئی دوسری صورت نہ دیکھتے ہوئے باغیوں نے گیریزن پر حملے کے پلان ہی کو فائنل رکھا۔ اٹیک کے لیے 25 اپریل کی تاریخ طے ہوئی۔ صبح چار بجے کے اندھیرے میں317 جنگجوؤں نے تھرٹین لینڈکروزرز میں "الفاشر گیریزن" کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ راستے کی چوکیوں پر کھڑے ادھ سوئے ادھ جاگے فوجیوں کو انھوں نے ہوش سبنھالنے سے پہلے ہی قابو کر لیا اور باندھ کر ساتھ بٹھا لیا۔ ناکوں سے ان کے ہاتھ مزید رائفلز آ گئیں۔ یہاں سے جب وہ گیریزن پہنچے تو سوڈانی فورسز پہلے سے پریڈ کے لیے نکل رہی تھی۔ دو اینٹونوز بمبرز اور پانچ گن شپ ہیلی کاپٹر انہی کے خلاف حملے کے لیے جانے ہی والے تھے۔ لیکن یہ وہ شکاری تھے جو اب خود شکار ہونے والے تھے۔ سو باغیوں نے گاڑیاں فوجیوں کے درمیان سے بھگاتے ہوئے اینٹونو بمبرز پر پہلے حملہ کیا۔ کندھوں پر رکھے راکٹس، آر پی جیز سیدھے فائر کیے گئے اور جہاز تباہ ہونے لگے۔ ایک طیارہ تو درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا۔ دو پائلٹس، جو جہاز کو اڑانے والے تھے انھوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن انھیں بھی مار دیا گیا۔ پھر ایک ایک فوجی کا پیچھا کر کے آفیسز میں جا کر فائرنگ کی گئی۔ یہاں تک کہ صبح کے نو بج گئے۔ جس جگہ اٹیک کے لیے سوڈانی طیارے تیار ہو رہے تھے وہاں سے کال آئی۔ ریڈیو پر پوچھا گیا کہ "جہاز کہاں رہ گئے؟" جواب ملا، جہاز راکھ بن گئے۔ ریڈیو پر انھیں بتا دیا گیا۔ دوسری طرف سناٹا چھا گیا۔ باغیوں نے گیریزن کے گرد موجود درختوں پر بھی فائرنگ کی۔ جس پر وہاں چھپے ہوئے فوجی پکے ہوئے پھلوں کی طرح نیچے گرنے لگے۔ انھوں نے گیریزن میں موجود گھروں کی بھی تلاشی لی۔ یہاں سے انھیں اپنا سب سے بڑا قیدی ایک میجر جنرل ابراہم اسماعیل ہاتھ آیا جو کہ سوڈانی ائرفورس کا کمانڈر تھا۔ صبح ساڑھے پانچ بجے شروع ہونے والا آپریشن دس بجے تک مکمل ہو چکا تھا۔ باغیوں نے گیریزن کو مکمل تباہ کر دیا تھا۔ سات جہاز تباہ کر دئیے تھے۔ ستر فوجیوں اور عملے کو ہلاک کر دیا تھا اور ایک میجر جنرل سمیت تیس سوڈانی سولجرز قیدی بنائے تھے۔ اس کے ساتھ ان کے ہاتھ اتنا اسلحہ آیا تھا کہ اسے لے جانے کے لیے ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ان کی صرف دو گاڑیاں تباہ ہوئی تھیں۔ وہ تیرہ گاڑیوں پر آئے تھے جن میں سے دو تباہ ہو گئی اور اب اٹھارہ میں واپس جا رہے تھے۔ یعنی دو جو تباہ ہوئیں ان کو نکال دیں تو سات نئی فوجی گاڑیاں ان کے ہاتھ آئیں۔ جبکہ ان کے صرف چار لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ اس سانحے کی تفصیل بتانا اس لیے ضروری تھا کہ اسی واقعے نے آج کی سوڈانی خانہ جنگی کا سب سے اہم کردار پیدا کیا تھا۔ کیونکہ ایسے بڑے حملوں کے بعد ہی پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر کے حکم پر ہی سوڈانی فورسز نے جنجوید کو باقاعدہ ایک پیرا ملٹری فورس کی شکل دی۔ انھیں نان عرب باغیوں سے نمٹنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی۔ اس پیرا میلٹری فورس کا نام "ریپڈ سپورٹ فورس" آر ایس ایف رکھا گیا۔ ان کے کمانڈر ایک سکول سے بھاگے ہوئے لمبے پتلے نوجوان محمد حمدان دغلو تھے۔ لیکن جب انھیں پیراملٹری فورس کے لیڈر کے اختیارات ملے تو یہ جنجوید سے سیدھے جنرل حماد دغلو، حمیدتی بن گئے۔ اب ہر کوئی انھیں جنرل حمیدتی کے نام سے جانتا ہے۔ ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ جنرل حمیدتی نے اس وقت فور قبیلے کے باغیوں کو کچلنے کا پروگرام بنایا تھا جب ان کے تجارتی قافلے پر فروں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں ان کے مطابق ان کے خاندان کے 60 لوگ مارے گئے اور اونٹوں کو لوٹ لیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے بھی عرب ملیشیا جنجوید بنائی اور عرب افریقی نوجوانوں کو اس میں بھرتی کیا۔ تو خیر دوستو جنرل حمیدتی نے دوہزار تین سے آٹھ کے درمیان پانچ سال میں دارفور میں باغیوں کو تو کچل دیا لیکن اس خون آشام طریقے سے کہ تین لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ جنرل حمیدتی کی فورسز پورے کے پورے دیہات جلا دیتیں۔ بچے بوڑھے جوان کسی کو رعایت نہیں تھی جو باغیوں کا ساتھی ہوتا یا اس کے ساتھ ہونے پر شک ہوتا یہ اس پورے گھر ہی کو اڑا دیتے۔ انھیں اور ان کے پیٹرن پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر کو تین لاکھ لوگوں کے قتل عام پر انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا۔ ان کے وارنٹ جاری ہوئے۔ صدر بشیر واحد سربراہ مملکت ہیں جنھیں بطور صدر اس قسم کے چارجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بعد روسی صدر پیوٹن دوسری شخصیت ہیں جن کے وارنٹ جاری ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے آپریشنز نے سوڈان کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔ ساؤتھ سوڈان الگ ملک بن گیا اور اسے بنانے والی وہی فورسز تھیں جن کے خلاف جنرل حمیدتی آپریشن کر رہے تھے۔ یعنی سوڈان لیبریشن موومنٹ۔ اس سب کے باوجود صدر بشیر انھیں اپنا پروٹیکٹر محافظ اور اپنا بندہ کہتے رہے۔ مگر اس اپنے بندے نے ریپڈ ریسپانس فورس کا سربراہ بننے کے بعد اپنی ملیشیا کی طاقت بڑھانا جاری رکھا۔ انھوں نے پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر سے ہٹ کر اپنے الگ سے انٹرنیشنل ریلیشنز قائم کر لیے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ 2014 میں جب یمن میں سعودی عرب نے پاکستانی فورسز کو لڑنے کے لیے بلانے کی کوشش کی تھی تو آپ جانتے ہیں پاکستان نے انکار کر دیا تھا تو اس کی جگہ جو فورسز یمن گئی تھیں وہ یہی جنرل حمیدتی کی جنجووید ملیشیا تھی۔ سوڈانی سعودی اتحاد کے بعد انھی حمیدتی نے اپنی عرب ملیشیا کے ہزاروں لوگوں کو سعودی کراؤن پرنس ایم بی ایس کی فرمائش پر یمن بھیجا۔ بدلے میں سعودی ولی عہد اور یو اے ای نے انھیں سونے میں تول دیا۔ کہتے ہیں ان کی ملیشیا کے ہر جنگجو کو تو پیسے ملے ہی لیکن ہر کرائے کے اس فوجی کے بدلے جنرل حمیدتی کو بھی بہت کچھ ملا۔ اسی دوران یو اے ای میں ان کے خفیہ بنک اکاؤنٹس کھلے۔ ایسے بنک اکاؤنٹس جہاں کسی سے اس کی آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جاتا۔ اس سب سے جنرل حمیدتی اتنے امیر ہو گئے کہ انھوں نے سوڈانی بنکوں کو ایک ارب ڈالرز رکھنے کے لیے بھی دئیے جب بنکوں نے کہا ہم مشکل میں ہیں۔ ون بلین ڈالر انھوں نے اس وقت پبلکلی کہا کہ یہ ایک ارب ڈالر اس رقم میں سے دئیے ہیں جو یمن میں لڑنے والے میرے آدمیوں کی تنخواہوں کے لیے ملے تھے۔ اسی طرح انھوں نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے سوڈان کی روس کے ساتھ جو ٹریڈ ڈیل تھی اس میں اپنے ذاتی کاروبار شامل کر دئیے۔ وہ یوں کہ دریائے نیل کے کنارے سونے کی کانوں پر ان کے خاندان کا قبضہ ہے۔ ان کانوں سے رشین پریذیڈنٹ ولادیمیر پیوٹن کی ملیشیا ویگنر گروپ کے ذریعے سونا نکالا جاتا ہے۔ جبکہ جنرل حمیدتی کی آر ایس ایف انھیں تحفظ دیتی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ویگنر گروپ اس سونے کی ڈیل میں ان کا پارٹنر ہے۔ گلوبل وٹنس سائٹ کے مطابق جنرل حمیدتی کے تین بھائی "ال گونیڈ" گولڈ کمپنی کے مالک ہیں اور حمیدتی خود بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے ہیں۔ تو خیر دوستو یہ اور ایسے اور دوسرے بہت سے کاموں نے حمیدتی کی دولت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ آج ان کے پاس ستر ہزار سے زائد مسلح باوردی ذاتی فوجی ہیں۔ اب کہنے کو یہ جنجووید عرب ملیشیا ہی تھی جس کو کہ اب سوڈانی فورس کا ایک ونگ بنا لیا گیا ریپڈ سپورٹ فورس کے نام سے لیکن اصل میں تو یہ جنرل حمیدتی کی ذاتی فورس ہے۔ وہ فورس جسے پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر نے ریاست بچانے کے لیے اپنے طور پر بھرتی کیا تھا وہ اب ریاست کے اندر ریاست ہے ایک شخص کی ملکیت بن چکی ہے کیونکہ اس ایک شخص کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان یو اے ای اور رشین پریزیڈنٹ پیوٹن کی سپورٹ حاصل ہے۔ انھوں نے یورپ سے بھی ایک ساز باز کر رکھی تھی کہ وہ افریقیوں کو غیرقانونی طور پر لیبیا کا بارڈر کراس کرنے نہیں دیں گے سوڈان سے لیبیا کا باڈر۔ اور اس کے بدلے وہ یورپ سے بھی اچھی خاصی رقم وصول کرتے رہے۔ شاید اب بھی کر رہے ہوں یہ سب کچھ جاننے کہ بعد آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ دوہزار انیس تک ریپڈ سپورٹ فورس کے جنرل حمیدتی بہت طاقتور ہو چکے تھے۔ وہ سوڈان کے تیسرے سب سے طاقتور شخص بن گئے تھے۔ پہلے نمبر پر صدر فیلڈ مارشل عمر البشیر دوسرے نمبر پر آرمی چیف الفتح البرہان اور تیسرے پر جنرل حمدان عرف حمیدتی۔ اب ستم ظریفی دیکھئے کہ صدر اور کمانڈر ان چیف جو انھیں اپنی مدد کے لیے لیے کر آئے تھے اب ان کے پاس انھیں ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ الٹا وہ ان دونوں کو ہٹانے کی پلاننگ کر رہے تھے 2019 میں۔ وہ یوں کہ تیس سال سے اقتدار پر براجمان پریزیڈنٹ عمرالبشیر کے خلاف ٹونٹی نائنٹین میں سوڈانی عوام پھٹ پڑے۔ غربت اور عالمی پابندیوں سے بدحال لوگوں نے انسانی حقوق اور جمہوریت بحالی کا نعرہ لگایا۔ صدر عمرالبشیر کے حکم پر جنرل حمیدتی نے سیکنڑوں مظاہرین کو قتل بھی کیا ان پر گولیاں چلائیں انھیں گرفتار کیا بہت سے لوگوں کو لاپتہ کر دیا۔ لیکن اصل میں وہ عمرالبشیر کی جگہ لینے کی راہ ڈھونڈ رہے تھے۔ انھوں نے کمانڈر ان چیف الفتاح برہان کے ساتھ مل کر گیارہ اپریل 2019 کو پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر کو عہدے سے ہٹا دیا اس انقلاب پر لوگوں نے گاڑیوں پر کھڑے ہو کر جشن منائے۔ پریزیڈنٹ بشیر کو ہاؤس ارسٹ کر لیا گیا۔ ان پر بہت سے مقدمات بنا کر منظر سے غائب کر دیا گیا۔ شاید غریب ملکوں میں ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو جسے غیر قانونی طور پر لاتا ہے وہی اس کی چھٹی کرواتا ہے۔ جیسے پریزیڈنٹ بشیر، ایک سکول سے بھاگے لڑکے کو جنرل حمیدتی بنا کر اپنا پروٹیکٹر بنا کر لائے اور اسی کے ہاتھوں پھر رخصت ہوئے۔ سچ ہے طاقت کی جنگ میں اخلاق نام کا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا۔ لیکن ابھی آگے دیکھئے کہ اب تو جنرل حمدان داغلو حمیدتی کو اپنے اصل چیلنج جنرل الفتح برہان سے لڑائی کرنی تھی کیونکہ ابھی تو صرف صدر فارغ ہوئے تھے جبکہ جنرل حمیدتی تو سوڈان کے حکمران بننا چاہتے تھے اپریل دوہزار انیس میں جب صدر عمرالبشیر کی حکومت گرائی گئی تو اس کی جگہ ایک "ٹرانزیشنل ملٹری کونسل" بنائی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ سوڈان میں فری اینڈ فئیر الیکشن کروا کے ملک کو ڈیموکریٹک الیکٹڈ گورنمنٹ کے سپرد کرے گی۔ اس کونسل کے سربراہ، ہیڈ جنرل الفتاح برہان تھے آرمی چیف جبکہ ان کے ڈپٹی یہی جنرل حمیدتی تھے۔ آر ایس ایف کے سربراہ کو ذاتی جن کی فورس بن چکی تھی ان کو بنا لیا اس سے آپ ان کی طاقت کا اندازہ کر سکتے ہیں ان کے بعد باقی ممبرز میں سے کچھ سیاسی اور کچھ غیر سیاسی لوگ تھے ایک وزیراعظم عبداللہ ھمدوک بھی تھے لیکن ان سب کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان بیچاروں کو جب چاہے نکال باہر کیا جاتا تھا ان سے استعفے لے لیے جاتے یا ایک اور کو کر کے مارشل لاء لگا کر ٹرانزیشنل ملٹری کونسل کو بدل دیا جاتا تھا اور ان کا نام بدل کر پھر انہوں نے سوورینٹی کونسل رکھ دیا۔ نئے رولز اور جمہوریت کی بحالی کے لیے نئی ٹائم لائنز دینے کا وعدہ بھی کر لیا گیا یہ سب دیکھتے ہوئے عوام نے جنھوں نے پریزیڈنٹ فیلڈ مارشل بشیر کے تیس سالہ اقتدار کے خلاف تحریک چلائی تھی وہ پھر سڑکوں پر آ گئے۔ انھوں نے ملک کے دونوں طاقتور لوگوں جنرل الفتح برہان اور جنرل حمیدتی سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ جلدی جمہوری حکومت بحال کرو۔ یہ ڈرامے بازی بند کرو۔ ہم فوجی اقتدار کو نہیں مانتے۔ مظاہرین کو طاقت سے روکنے کے لیے جواب میں جنرل حمیدتی نے اپنی ملیشیا آر ایس ایف کو مظاہرین پر سیدھے فائر کرنے کا آرڈر کر دیا پہلے دن ہلاکتوں کی پوری خبریں نہیں آئیں۔ لیکن چند ماہ بعد الجزیرہ نے رپورٹ شائع کی کہ تین جون کے میسیکر، قتل عام میں دو سو چالیس سے زائد لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ جنرل حمیدتی جو یہ سب اپنی ریپڈ سپورٹ فورس سے کروا رہے تھے اس میں انھیں جنرل الفتح برہان کا تعاون حاصل تھا۔ کیونکہ ملک کے یہی دو حکمران تھے۔ ایک پیراملٹری فورسز کم ذاتی طاقتور ملیشیا آر ایس ایف کے جنرل حمیدتی نائب حکمران ڈپٹی حکمران اور دوسرے کمانڈر ان چیف جنرل الفتاح برہان فل بٹا فل حکمران ڈیفیکٹو سربراہ مملکت سوڈان۔ اب یوں ہوا کہ یہ دونوں سوڈانی حکمران جمہوری حکومت کے قیام کی کوئی تاریخ دے رہے ہیں اور نہ ہی ملک میں سٹیبلٹی آ رہی ہے۔ کیونکہ اب دونوں حکمرانوں میں رسہ کشی چل پڑی ہے کہ کون قائم رہے گا۔ جس کی لاجیکل وجہ بھی ہے ان دونوں کے نزدیک۔ جنرل الفتاح برہان چاہتے ہیں کہ الیکشن اور جمہوری حکومت کی بحالی تب شروع ہو گی جب ملک کی ایک فوج ہو گی۔ ابھی دو فوجیں ہیں۔ اور ایک ملک کی دو فوجیں نہیں ہو سکتیں۔ سو ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ جنرل حمیدتی کی آر ایس ایف کو ملک کی سرکاری فوج میں شامل کیا جائے گا۔ جس کے بعد ملک میں جمہوری عمل بحال ہو گا۔ یہ ان کی ساری آئیں بائیں شائیں کا لب لباب ہے جو ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ اب دیکھیں کہ اگر آر ایس ایف کے جنرل حمیدتی یہ بات مان لیتے ہیں کہ ان کی فورسسز کو جلد از جلد سوڈان کی نشنل آرمی میں شامل کر دیا جائے تو ظاہر ہے ان کی طاقت ختم۔ ان کے پاس جو سونے کی کانیں ہیں یو اے ای، سعودی عرب اور روسی ملیشیا ویگنر گروپ سے جو تعلقات ہیں اور ان کی وجہ سے جو طاقت ہے پیسا ہے وہ سب تو اسی لیے ہے کہ ان کے پاس ایک لاکھ کے قریب جنگجو ہیں۔ جو ان کے ڈسپوزل پر ہیں۔ جو ان کی فورس ہے۔ سو وہ چاہتے ہیں کہ اب فوج کے حکمران وہ ہوں۔ یہ وہ کہتے نہیں، لیکن ان کی ڈیمانڈز کا مطلب یہی ہے۔ ان کی آفیشل ڈیمانڈ یہ ہے کہ ہاں آر ایس ایف کو فوج کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ جیسا کہ ٹرانزیشنل کونسل میں طے ہوا تھا، لیکن یہ عمل دو سال میں نہیں بلکہ دس سال میں ہونا چاہیے۔ اب ظاہر ہے یہ ٹائم بائے کرنے کی کوشش ہے اور جنرل حمیدتی کے سیاسی عزائم سارا ملک دیکھ رہا ہے جس طرح وہ اپنے آپ کو ایک سیاسی لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں ظاہر ہے دس سال میں تو ان کو وقت ملے گا کہ وہ پلاننگ کر سکیں۔ جب کمانڈر ان چیف جنرل الفتاح برہان نے یہ ڈیمانڈ ماننے سے انکار کر دیا تو جنرل حمیدتی نے اپنی فورسز کو ملک کی اہم پوزیشنز پر کی سٹریٹیجک پوائنٹس پر تعینات کرنا شروع کر دیا۔ جن میں کیپیٹل خرطوم اور مختلف ائرپورٹ شامل تھے۔ چنانچہ اب لڑائی بڑھ گئی۔ ان کے مقابلے پر سوڈانی ریگولر فورسز جو کہ جنرل برہان کی وفادار ہیں انہوں نے ایکشن لینا شروع کر دیا۔ جنرل حمیدتی نے عین اس دن جب روسی صدر یوکرین پر حملہ کرنے والے تھے ان سے ماسکو میں ملاقات کی۔ فروری 24، 2022 میں یہ ملاقات اس لیے تھی کہ وہ اپنی فورسز کے لیے طیارے خرید سکیں جدید اسلحہ بھی وہ چاہتے تھے۔ لیکن ابھی تک ان کو طیارے نہیں ملے سو انھوں نے اپنے بچاؤ کے لیے سوڈانی ملٹری کے طیارے تباہ کرنے شروع کر دئیے۔ انھوں نے خرطوم اور سٹریٹیجکلی امپورٹنٹ شہر میرو کے ہوائی اڈوں پر گولے برسانے شروع کر دئیے۔ بہت سے طیارے بھی تباہ کر دئیے۔ اس وقت جب آپ وڈیو دیکھ رہے ہیں تو اس نقشے کے مطابق پورے سوڈان میں ہی دونوں جنرلز کی فورسز ایک دوسرے پر حملے کر رہی ہیں۔ ملک کا کنٹرول حاصل کرنا دونوں کی مجبوری بن چکا ہے۔ اب تک چار سو سے پانچ سو کے درمیان لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ دسیوں لاکھوں گھروں میں اور مختلف جگہوں پر ٹریپ ہو چکے ہیں۔ اصل تعداد اور نقصان کا اندازہ نہیں ہے۔ شہروں اور گلیوں کے اندر لڑائی جاری ہے۔ کئی ائرپورٹس کا آپریشن معطل ہو چکا ہے۔ بلکہ کئی جہاز تباہ ہو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مختلف ملکوں نے اپنے سفارتی عملے کو بھی نکالنا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ نے اپنا سفارتی عملہ نکال لیا ہے۔ باقی ممالک بھی اپنے سفارتکاروں کو بچانے کی کوششوں میں ہیں۔ پاکستان نے بھی سعودی عرب کے تعاون سے اپنا سٹاف شفٹ کر دیا ہے۔ عارضی جنگ بندیوں کے باوجود دو ہفتوں سے یہ لڑائی جاری ہے لیک اس کے جلدی ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ وجہ یہ ہے کہ سوڈانی ریگولر آرمی، آر ایس ایف سے ہار ماننے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ جنرل الفتاح برہان نے اپنے ڈپٹی جنرل حمیدتی کے سرنڈر سے کم کچھ بھی ماننے سے انکار کر دیا ہے اعلانیہ طور پر۔ جبکہ جنرل حمیدتی کے ہار ماننے کا سیدھا مطلب طاقت، دولت اور مستقبل تینوں سے محرومی ہے۔ بلکہ وہ سکتا ہے پھر ان کے خلاف کاروائی بھی شروع ہو جب ایک لاکھ جنگجو نہ رہیں تو پھر انہیں کون بچائے گا دوستو یہ کانفلیکٹ تھرڈ ورلڈ کی ایک ایسی سول وار ہے جس میں روس، امریکہ، سعودی عرب، مصر اور چین تک انوالو ہیں۔ سوڈان کی سول وار بھی کسی نہ کسی طرح انٹرنیشنل گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ یہ گریٹ گیم سمجھنے کے لیے آپ ہماری ایکسکلوسیو سیریز "دی گریٹ گیم" یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں دیکھئے ایران اور سعودی عرب کی صلح کیسے ہوئی؟ اور یہ رہی وہ کہانی کہ امریکی راز دنیا بھر کو کیسے پتا چلے؟
2023-04-30 16:43