FSW Vlog | Who will win the new moon + space race and how? | Faisal Warraich

FSW Vlog | Who will win the new moon + space race and how? | Faisal Warraich

Show Video

کیسے ہیں دوستو جولائی نائنٹین نائنٹی سیون میں جب ناسا کے دو مشنز سوجرنر اور پاتھ فائنڈر پلانٹ مارس پر اترے تو عرب ملک یمن کی عدالت میں ایک کیس دائر ہو گیا۔ یمن میں تین رشتے داروں، اسماعیل، مصطفیٰ اور عبداللہ العمری نے ناسا کے خلاف مقدمہ کر دیا کہ مریخ تو ان کی ملکیت ہے۔ وہ مارس کے قانونی مالک ہیں اور آج سے نہیں بلکہ پچھلے تین ہزار سال سے ان کا خاندان مریخ کی ساری لینڈ اوون کرتا آ رہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس پلانٹ مارس کی پراپرٹی کے کاغذات بھی ہیں۔ تینوں نے ناسا کو خبردار کیا کہ مارس چونکہ ان کی پراپرٹی ہے لحاظہ یہاں کچھ بھی کرنے سے پہلے ان سے اجازت لی جائے ورنہ کچھ نہ کیا جائے۔ لیکن اتنی اجازت انھوں نے بہرحال دے دی کہ چلو اب اگر امریکہ ان کی اجازت کے بغیر مارس پر لینڈ کر ہی گیا ہے تو امریکہ کو چاہیے کہ آج کے بعد مارس کے بارے میں کوئی بھی خبر دینا ہو تو پہلے ہماری فیملی کے سربراہ سے اپروول لے لیا کریں۔ اب دوستو یہ بہت مضحکہ خیز بات تھی۔ ظاہر ہے ناسا سپوکس پرسن برین والش نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ مریخ اور تمام خلائی اجسام، سپیس باڈیز سوائے زمین کے کسی کی بھی ملکیت نہیں۔ یہ تمام انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں۔ مگر تین یمنی رشتے داروں کا یہ کلیم اپنے طور پر آج بھی قائم ہے لیکن ان کی سنتا کون ہے؟ مگر امریکہ میں دوستو کچھ لوگ ان یمنی بھائیوں سے بہت تیز ثابت ہوئے۔ انھوں نے صرف دعویٰ کر کے اپنے حق میں فیصلہ لینے کی کوشش نہیں بلکہ انھوں نے سیدھا سیدھا مریخ اور خاص طور پر چاند کو بیچنا شروع کر دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ چاند اور کئی دوسرے بڑے پلانٹس سیارے اوون کرتے ہیں وہ ان کے مالک ہیں۔ انھی میں سے ایک شخص ڈینس ہوپ ہے۔ اس نے خود کو چاند کا مالک ڈکلئیر کیا اور پھر نوے کی دہائی میں چاند کی زمین ٹکڑوں ٹکڑوں میں بیچنا شروع کر دی۔ بلکہ مسٹر ہوپ نے خود کو گلیکٹک پریزیڈنٹ بھی ڈکلیر کر دیا۔ یعنی زمین کے علاوہ جو کچھ بھی گلیکسی میں ہے تمام پلانٹس، سورج اور چاند وغیرہ سب کا حکمران خود کو انہوں نے ڈکلئیر کر دیا۔ ڈینس ہوپ نے "لونر ایمبیسی"، چاند کا سفارتخانہ کے نام سے باقاعدہ امریکہ میں بزنس شروع کیا۔ گویا زمین پر اس نے اپنی خلائی ریاست کا سفارتخانہ کھول لیا۔ اب لونر ایمبیسی کرتا یہ ہے کہ اپنے کلائنٹس کو کم از کم پنتیس ڈالرز میں چاند پر ایک ایکڑ فروخت کر دیتا ہے۔ مسٹر ہوپ کا دعویٰ ہے کہ جمی کارٹر اور رونلڈ ریگن سمیت تین امریکی پریزیڈنٹس اس سے چاند پر پراپرٹی حاصل کر چکے ہیں۔ پانچ سو سے زائد فلم اور شو بز کی سیلیبرٹیز بھی اس سے چاند اور کچھ دوسرے سیاروں پر زمین خرید چکے ہیں۔ اب کافی عرصے سے ڈینس ہوپ تو نظر نہیں آئے لیکن آج کل ان کا بیٹا بیٹا کرس اس کی جگہ چاند کی زمین فروخت کر رہا ہے۔ اب دوستو بظاہر یہ دونوں سچی کہانیاں مذاق لگتی ہیں۔ لیکن ان کے پیچھے اوٹر سپیس ٹریٹی کے عالمی معاہدے کی ایک غیر واضح شق ہے جس نے ہوپ اور ان جیسے کئی لوگوں کو ایک فرضی پراپرٹی سے ملینز آف ڈالرز کمانے میں مدد دی۔ وہ معاہدے جسے اوٹر سپیس ٹریٹی کہتے ہیں انیس سو سڑسٹھ میں لکھا گیا۔ اس میں امریکہ، چین اور روس سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک کے دستخط موجود ہیں۔ اس کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی جب سویت روس اور امریکہ میں شدید سرد جنگ چل رہی تھی۔ سپیس ریس کا دور تھا تو خدشہ تھا کہ اگر ایک نے خلا میں کوئی خزانہ تلاش کر لیا یا دوسرے کی سیکیورٹی پر اوپر سے خلا سے حملہ کر دیا تو وہ کیا کرے گا؟ اس لیے یہ طے کرنا ضروری ہو گیا کہ زمین سے او پر اوٹر سپیس میں جو کچھ ہے چاند، سیارے، ستارے، میٹرائیڈز، دم دار ستارے، شہاب ثاقت، کیوپر بیلٹ وغیرہ وغیرہ یہ کس کی ملکیت ہوں گے؟ اس ملک کی جس کا سپیس شپ ان میں سے کسی پر سب سے پہلے لینڈ کرے گا یا اس کی جس کے پاس جب بھی طاقت ہو گی؟ مطلب قانونی پوزیشن کیا ہو گی؟ تو اسی لیے اوٹر سپیس ٹریٹی، خلائی معاہدہ سائن کیا گیا جس کے آرٹیکل ٹو میں لکھا گیا کہ کوئی نیشن خلا میں سپیس میں کسی بھی باڈی پر ساورینٹی، ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ تو اس معاہدے میں جب یہ لکھا گیا کہ کوئی ملک، کوئی نیشن اوٹر سپیس کی مالک نہیں ہے تو اس ایک لفظ سے ڈینس ہوپ جیسے کئی لوگوں نے جواز نکال لیا کہ اچھا کوئی کنٹری کوئی نیشن اوٹر سپیس کی چاند سورج کی مالک نہیں ہو سکتی لیکن کوئی ایک انسان تو ہو سکتا ہے ناں؟ وہ تو ایک نیشن نہیں ہے سو وہ ایک انسان کیوں نہ ہم خود ہو جائیں؟ کون سا کوئی مارس یا چاند کا مالک میرے گھر میں جائیداد کے کاغذات لے کر آ جائے گا کہ نکلو یہاں سے؟ ایسا تو نہیں ہونے والا ڈینس ہوپ جیسے کئی لوگوں نے کچھ سال میں مون، مارس، جیوپیٹر، سیٹرن، یورنیس اور نیپچون کے اونر ہونے کا کلیم کر دیا۔ بلکہ سورج اور پلوٹو کا بھی کئی لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے مالک ہیں اور بیچا بھی۔ یہ ایک نئی اور عجیب قسم کی انٹرپرینیورشپ تھی۔ اپنے ان کلیمز کو کنفرم کرنے کے لیے ڈینس ہوپ اور ان جیسے لوگوں نے یونائیٹڈ نیشنز اور امریکی حکومت کو خط لکھ دئیے کہ ہم چاند اور مارس سمیت تمام پلانٹس کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ کوئی مسئلہ وسلہ تو نہیں؟ اب ظاہر ہے ایسے سوالوں کا کیا جواب آنا تھا۔ سو جب جواب نہیں آیا تو ان لوگوں نے خاموشی کو رضا مندی کا نام دیا اور اوٹر سپیس باڈیز کی پلاٹنگ کی اور انھیں بیچنا شروع کر دیا۔ ایسے لوگوں کی سائٹس اور ان کے آفسز اور گوگل میپ بھی آپ کے سامنے ہیں۔ یعنی یہ ایک بہت سیریس مذاق تھا جو دہائیوں سے ہو رہا تھا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ یہ بھلے آپ کو مضحکہ خیز لگے لیکن مذاق مذاق میں یہ لوگ اب تک ملینز آف ڈالرز کما بھی چکے ہیں اور آج بھی ان کا کاروبار اوپن ہے۔ یہ ٹاک شوز اور لائیو نیوز کا حصہ بھی بنتے رہتے ہیں۔ دراصل زیادہ تر لوگ ان کے کلائنٹ اس لیے نہیں بنتے کہ انھیں واقعی چاند پر لینڈ اون کر کے گھر بنانا ہے بلکہ وہ اسے ایک انٹرٹینمنٹ سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں اور کچھ سرکاری کاغذوں جیسے بڑی بڑی سٹیمپس والے پیپرز لے کر خوش ہو جاتے ہیں۔ ہاں کچھ واقعی بیوقوف بھی بنتے ہیں کوئی کمی تھوڑی ہے دنیا میں ان کی۔ تو خیر یہ اور اس طرح کے کاروبار اور کیسز سب ایک کھیل ہے، مگر عالمی طاقتوں کے لیے چاند سمیت پوری سپیس کھیل کا میدان نہیں گریٹ گیم کا میدان ہے۔ اور جنگ واقعی شروع ہو چکی ہے۔ یہ ایک ایسا میدان جنگ بن گیا ہے جس میں اکانومی اور قبضہ دونوں بہت ہی اہم ہیں پچھلے چد ہی سال میں۔ اس کا آغاز تو بہت پہلے ہو گیا تھا لیکن تازہ گرما گرمی اس وقت آئی جب چین نے دوہزار اٹھائیس سے بتیس تک چاند پر مستقل بیس بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس نئی سپیس ریس میں امریکہ نے بھی دو ہزار تیس تک چاند پر دوبارہ جانے اور مستقل رہنے کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کر دیں ہیں۔ حالانکہ دوہزار دس میں امریکی صدر باراک اوباما نے کینڈی سپیس اسٹیشن پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ ہمیں چاند پر جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم پہلے ہی وہاں جا چکے ہیں۔ اب ہمیں آگے کی دنیا کو کھوجنا ہے۔ لیکن باراک اوباما جب صدر نہیں رہے تو ان کے بعد ناسا کے ایک سابق ڈائریکٹر نے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قائل کر لیا کہ ہمیں چاند پر جانا چاہیے ان کے مطابق وہ چاند جس پر ہم آخری بار نائٹین سیونٹی ٹو میں گئے تھے وہ کوئی اور چاند تھا۔ آج کا چاند بہت بدلا ہوا چاند ہے۔ اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ نائب صدر مائیک پنس نے کہا تھا کہ ہم سکسٹیز کی سپیس ریس میں واپس چلے گئے ہیں اور اس بار سٹیکس ذرا زیادہ ہائی ہیں۔ یاد رہے ساتھیو کہ ناسا کے ڈائریکٹر نے یہ جو کہا تھا کہ اکاون سال پہلے والا چاند آج کے چاند سے بہت مختلف تھا اس تناظر میں کہا تھا کہ اس وقت کے چاند کے بارے میں ہماری جو معلومات تھیں وہ اب بہت بدل چکی ہیں۔ چاند وہی ہے اس کی معلومات بدل چکی ہیں اس چاند پر شاید دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن آج کے چاند پر نہ جانے کی غلطی کوئی عالمی طاقت افورڈ نہیں کر سکتی۔ لیکن اب چاند کی وہ نئی انڈرسٹینڈنگ کیا ہے جس کی وجہ سے چین اور امریکہ میں مون ریس لگ گئی ہے؟ دوستو اس کے دو اہم ترین پوائنٹس ہیں۔ پہلا یہ کہ سکسٹیز اور سیونٹیز کے چاند کے بارے میں انسان سمجھتا تھا چاند کی سطح پر کہیں بھی پانی یا برف نہیں ہے۔ ریت ہی ریت ہے اور نہ ہی کوئی ایسا میٹیریل ہے جو انسانوں کے کام آ سکے۔ مطلب اگر ہے بھی تو اسے زمین پر لانا ناممکن ہے۔ سو وہ چاند ایسا تھا۔ مگر اب چاند پر برف اور پانی دونوں دریافت ہو چکے ہیں۔ ناسا کی کئی ریسرچز کے مطابق چھ سو ارب کلوگرام برف اور پانی چاند پر موجود ہے۔ چھوٹی چھوٹی کئی جمی ہوئی جھیلیں ہیں۔ یہ جھیلیں چاند کے ان حصوں میں ہیں جہاں ہر وقت سایا رہتا ہے جہاں سورج کی تپش کبھی نہیں پہنچتی۔ مطلب کریٹس کے شیڈوز میں۔ پانی کی یہ منجمد جھیلیں خاص طور پر چاند کے ساؤتھ پول، قطب جنوبی میں موجود ہیں۔ اگرچہ یہ سب برف کی شکل میں ہیں، لیکن انھیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی پانی کو استعمال میں لانے کے لیے سب سے پہلے وہاں کئی روبوٹس اور صرف دو یا تین اسٹروناٹس کچھ کچھ ہفتوں کے لیے شفٹس پر کام کریں گے انہیں وہاں بھیجنا ہو گا۔ یہ ایک ایسا پلانٹ وہاں لگائیں گے جو چاند کے پولز میں موجود برف کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں سپلٹ کریں گے۔ پھر یہ آکسیجن، اسٹرونائٹس کے ٹینکس میں کام آئے گی کیونکہ انھیں سانس بھی تو لینا ہے ناں زمین سے تو مسلسل آکسیجن ٹینکس چاند پر نہیں بھیجے جا سکتے۔ سو چاند پر رہنے والے سائنس دان اپنے ٹینکس میں چاند سے ہی آکسیجن بھریں گے اور ہائیڈروجن کو راکٹ فیول کے طور پر استعمال کریں گے۔ آئیس اور واٹر کے بعد پھر ایک ایسا ائیسوٹوپ بھی چاند پر دریافت ہوا ہے جو کہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت کو سب سے بہتر طریقے سے پوری کر سکتا ہے۔ سب سے بڑی ضرورت مطلب انرجی، توانائی۔ وہی جس کے لیے انسان کبھی سولر پینلز لگاتا ہے، کبھی کوئلہ جلاتا ہے اور کبھی نیوکلیر فیوژن ری ایکشن استعمال کرتا ہے۔ وہ ائیسوٹوپ جو انرجی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے وہ ہے ہیلیم تھری۔ اب ہیلیم تھری کیا بلا ہے اور انسان کو اس کی کیوں ضرورت پڑے گی؟ تو دوستو بات یوں ہے کہ انسان نے اب تک انرجی کا جو سب سے طاقتور سورس دریافت کیا ہے وہ نیوکلیر انرجی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ کلین سورس آف انرجی نہیں ہے۔ کیونکہ نیوکلیر انرجی کے لیے فیوژن کے عمل میں ہمیں یورینیم استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جس سے فیوژن کے دوران ریڈیوایکٹی ویٹی ہوتی ہے، تابکاری پھیلتی ہے۔ پھر اگر نیوکلیر ری ایکٹر کو نقصان پہنچے، جیسا کہ جاپان اور پولینڈ میں ہو چکا ہے تو تابکاری پھیل جاتی ہے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں یا صحت کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ پھر یورینیم سے نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے بعد جو ویسٹ بچتی ہے اسے ٹھکانے لگانا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ویسٹ بھی اگر لائف کی کسی بھی شکل سے ٹکرا جائے تو موت ہی موت ہے آپ اسے سمندر میں بھی نہیں پھینک سکتے۔ مطلب نیوکلیر انرجی میں یورنیم استعمال کرنا بہت مہنگا بھی پڑتا ہے اور خطرناک بھی۔ اب یورینیم کا بہترین نعم البدل، الٹرنیٹیو، ہیلیم تھری ہے۔ کیونکہ نہ تو ہیلیم تھری فیوژن ری ایکشن میں تابکاری، ریڈیوایکٹی ویٹی پیدا کرتا ہے اور نہ ہی اس کے ویسٹ کو ٹھکانے لگانا ایک عذاب ہے۔ کیونکہ اس کی ویسٹ, سِمپل ایلیمنٹ ہیلیم ہی ہوتی ہے جو کہ پہلے سے کائنات میں دوسری سب سے زیادہ پائی جانے والی دھات، ایلیمنٹ ہے۔ سو یہ ایک بہت محفوظ اور زیادہ انرجی پیدا کرنے کا سستا ترین طریقہ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ زمین پر ہیلیم تھری زمین کی تہوں میں محض ٹریسز کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ فزکس ورلڈ ڈاٹ کام کے مطابق یہ دنیا میں ہیلیم کی نسبت پوائنٹ زیرو زیرو زیرو زیرو ون پرسنٹ موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں چاند کی مٹی، لونر سوائل جسے "ریگولیتھ" کہتے ہیں اس میں ایک ملین میٹرک ٹن تک ہیلیم تھری موجود ہے۔ کیونکہ سولر ونڈز کے ساتھ لاکھوں کروڑوں سال سے ہیلیم تھری چاند کی مٹی میں جمع ہو رہا ہے۔ سو یہ پہلی بڑی تبدیلی ہے جو سکسٹیز اور سیونٹیز کے چاند کی انڈرسٹینڈنگ کے بارے میں ہمارے پاس آئی ہے اور چاند پر دوبارہ جانا اہم ہو گیا ہے۔ پھر پانی اور برف کے بارے میں بھی آپ جان چکے کہ وہ بھی چاند پر دریافت ہو چکے ہیں۔ لیکن اب آپ پوچھیں کہ کیا ہم چاند سے برف، پانی یا ہیلیم تھری کے ڈرم بھر بھر کر زمین پر لایا کریں گے؟ نہیں دوستو انھیں زمین پر لانے کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہم کچھ ایسے سپیس مشنز چاند پر شفٹ کر دیں گے جن کے لیے زمین پر بہت زیادہ انرجی خرچ ہوتی ہے۔ سو بہت زیادہ بچت ہو گی۔ پیسے کی بھی، انرجی کی بھی اور وقت کی بھی۔ اب یہ ہے دوسری انڈرسٹینڈنگ جو چاند کے بارے میں پہلے نہیں تھی۔ تیسری اور ان دونوں سے اہم بات یہ ہے کہ مون بیس کی لانگ ٹرم ضرورت چاند کے لیے نہیں ہے بلکہ مارس اور مارس سے آگے کی دنیا می جانے کے لیے ہے۔ کیونکہ پلانٹ مارس تو وہ جگہ ہے جہاں انسان پہلی انسانی سپیس کالونی بنانے جا رہا ہے۔ مارس اتنا اہم ہے کہ اب تک یہاں مختلف ممالک کے پچاس مشنز جا چکے ہیں۔ لیکن نئے امریکی اور چائنیز مشنز جو خاص طور پر مارس کالونی بنانے کے لیے جا رہے ہیں، انھوں نے پلانٹ پر بہت سے سائنٹیفک تجربات کرنا ہیں۔ ان میں وہ ایکسپیریمنٹس بھی شامل ہیں جن سے مریخ کی سطح پر میلوں موٹی برف کی تہہ کو پگھلانا ہے۔ پھر پلانٹ کی تھن ایٹماسفیر میں اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسز، گرین ہاؤس گیسز پھیلانا ہیں کہ اس کا ایک طاقتور ایٹماسفئیر پیدا ہو سکے۔ تاکہ مریخ تھوڑا گرم ہو سکے۔ اب اس سب کے لیے باربار سپیس شپس اور راکٹس مریخ کی طرف بھیجنا تو پڑیں گے۔ کیمیونیکیشنز بھی کرنا ہوں گی۔ اسی طرح کے کچھ پلانز سیٹرن کے چاند، مون ٹائٹن کے بارے میں بھی ہیں کہ وہاں لائف تلاش کرنا ہے۔ اور بھی سپیس مشنز ہیں جنھیں آئندہ مریخ اور سیٹرن سے آگے بھیجنا ہے تو ان سب کو چاند کی مستقل بیس سے ہی لانچ کرنے کا منصوبہ ہے کیونکہ یہ سب سے سستا اور آسان ہو گا۔ اب مائی کیورئیس فیلوز یہاں آپ کا ایک اور سوال بنتا ہے۔ وہ یہ کہ چاند تو زمین سے محض تین لاکھ چھیاسی ہزار کلومیٹر دور ہے جبکہ پلانٹ مارس چودہ کروڑ کلومیٹر اور دیگر باڈیز اس سے بھی زیادہ دور ہیں۔ تو پھر یہ چند لاکھ کلومیٹر، کروڑوں اربوں کلومیٹرز کے سامنے کیا معنی رکھتے ہیں۔ جہاں راکٹس یا سپیس مشنز نے سیکنڑوں ہزاروں کروڑ کلومیٹر آگے جانا ہے تو زمین سے چاند کے چند لاکھ کلومیٹر بھی طے کر ہی لے گا چند لاکھ کلومیٹر کم کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تو دوستو اس کا جواب یہ ہے کہ فرق پڑتا ہے۔ بلکہ بہت زیادہ فرق پڑتا ہے کیونکہ زمین سے کسی بھی راکٹ کو خلا میں بھیجنے کے لیے سب سے زیادہ فیول زمین کی گریویٹی کو زائل کرنے میں لگتا ہے۔ کیونکہ زمین کسی بھی جسم کو بہت زیادہ طاقت سے ہر وقت اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی ہے۔ یہ جو آپ سپیس مشنز کو لانچ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کے نیچے سے بے پناہ آگ اور توانائی خارج ہو رہی ہوتی ہے تو یہ دراصل لاکھوں گیلن فیول اسی گریویٹی کو زائل کرنے، نیوٹرل کرنے کے لیے ہی تو جل رہا ہوتا ہے۔ یہ کتنا فیول ہوتا ہے؟ آپ کو بتائیں ایک اندازے کے مطابق تو پرانے دور میں اپولو مشنز کے لیے چھبیس چھبیس لاکھ کلوگرام فیول چاہیے ہوتا تھا ایک راکٹ سے اپولو مشن کو اوپر بیجھنے کے لیے جبکہ ابھی جو ایلون موسک کے سپیس ایکس کے راکٹس گریویٹی سے نکلے ہیں ان میں بھی ہزاروں ٹن فیول استعمال ہوا ہے۔ تو یہ اتنا زیادہ فیول صرف اس لیے لگتا رہا کہ زمین بہت زیادہ طاقت سے ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی ہے۔ یعنی جتنا وزنی سپیس شپ اتنی زیادہ انرجی۔ تو کیا خیال ہے کیوں ناں زمین کی گریویٹی ہی کم کر دی جائے؟ ظاہر ہے اب یہ تو ممکن نہیں۔ تو پھر کیا برا ہے کہ راکٹ بنائیں بھی وہیں اور لانچ بھی وہیں سے کریں جہاں پہلے سے گریویٹی بہت کم ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ چاند کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ چاند کی گریویٹی زمین کی کشش کا صرف سکسٹین پوائنٹ فائیو، ساڑھے سولہ فیصد ہے۔ چھ گنا کم کشش بنتی ہے یہ۔ زمین کی نائن پوائنٹ ایٹ میٹر پر سیکنڈ سکوئر گریویٹی کے مقابلے میں مون گریوٹی صرف ون پوائنٹ سکس ہے۔ اب کہاں نائن پوئنٹ ایٹ اور کہاں ون پوائنٹ سکس۔ سو اتنی کم گریویٹی کی وجہ سے کسی بھی مشن کا وہ خرچ توانائی اور وقت بچ جائے گا جو صرف اس لیے لگتا ہے کہ زمین کی گریویٹی بہت زیادہ ہے۔ چاند سے راکٹ لانچ کرنے کے لیے انسان زمین سے چاند کے اسٹیشن پر صرف وہ چیزیں بھیجے گا جن سے بیس کو بہتر بنانا ہو گا۔ باقی کام چاند کی بیس پر موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور شفٹوں میں کام کرنے والے سائنسدان کیا کریں گے۔ چاند سے لانچنگ کرتے ہوئے جتنا بھی فیول کسی سپیس شپ کو چاہیے ہو گا وہ چاند پر ہیلیم تھری اور لیکوئیڈ ہائیڈروجن کی شکل میں پہلے سے موجود ہو گا۔ تو یہ تیسری ریزن ہے کیونکہ مون ریس تیز ہو گئی ہے۔ ان تینوں کے بعد ایک چوتھی بہت اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ مون ریس تیز ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ جو ملک بھی پہلے مون بیس بنا لے گا وہ اکنامکلی بھی معاشی طور پر بھی ایک بڑی جنگ جیت جائے گا۔ کیونکہ جس نے بھی اچھی بیس بنائی ہو گئی وہ صرف اپنے سپیس مشنز ہی خلا میں نہیں بھیجے گا بلکہ یہ ایک عالمی اسٹیشن بن جائے گا جہاں سے کوئی بھی ملک فیس ادا کر کے اپنے مشنز کو لانچ کر سکے گا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ یو اے ای اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک اپنے اپنے سپیس مشنز لانچ کرنے کے منصوبے دے چکے ہیں۔ سو جو ملک سب سے پہلے اور سب سے بہتر اڈا بنا لے گا وہ ایک نئی سپیس سروس تیار کر لے گا جس سے اس کی ڈپلومیٹک اور سافٹ پاور ار اکانومی بھی بہت تیزی سے ترقی کرنے لگے گی آگے بڑھنے لگے گی ان چاروں پوائنٹس کا لب لباب یہ ہے کہ چاند پر مستقل بیس دراصل انسانوں کے لیے ایک سپیس اسٹیشن اور ایک گیس اسٹیشن ہو گا۔ یہاں سے انسانیت اپنی گاڑی کا ٹینک فل کروا کے سستے میں کائنات کا آغاز کرے گی۔ اب دوستو آپ یہ چاروں پوائنٹس، مطلب ہیلیم تھری کا انرجی سورس، پانی اور برف کا خزانہ مارس پر کالونی کی ضرورت اور اکنامک بینیفٹ کو ذہن میں رکھیں اور دیکھیں کہ امریکہ اور چین ان سب فوائد کو سمیٹنے کے لیے کیا کیا تیاری کر رہے ہیں۔ ہم سب سے پہلے آپ کے سامنے چین کی کہانی رکھتے ہیں۔ دوستو مون بیس بنانے کے لیے چین برسوں سے سرتوڑ زور لگاتا رہا ہے۔ ہیلیم تھری کے لیے چینی کوششوں کی خبریں کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں تھیں۔ اخبارات میں آتی رہتی تھیں۔ تو دوہزار انیس میں کیا ہوا کہ چین نے ایک ایسا مشن کامیابی سے مکمل کیا جو اس سے پہلے کسی نے پلان بھی نہیں کیا تھا۔ چاند کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ وہ زمین کے ساتھ فیس لاکڈ ہے۔ یعنی زمین کا میگنیٹک فیلڈ چاند کو اپنی طرف اس زور سے کھینچے ہوئے ہے کہ چاند منہ تک نہیں موڑ سکتا۔ یعنی وہ زمین کے ساتھ ساتھ گردش تو کرتا ہے لیکن اپنے گرد گھوم نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لاکھوں کروڑوں برس سے چاند کی ایک ہی سمت کو دیکھے چلے جا رہے ہیں۔ وہ سمت جو کھڈوں سے، کریٹرز سے، اونچے نیچے ٹیلوں سے اور چمکتی لونر ڈرٹ سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن حیران کن طور پر چاند کی دوسری ہم سے اوجھل سمت والے حصے میں اتنے کھڈے اور اتنی اونچ نیچ نہیں ہے۔ اگر کبھی ہم چاند کی دوسری طرف دیکھ لیں تو وہ زیادہ چمکدار اور خوبصورت دکھائی دے گی۔ ویسے اس وڈیو میں آپ یہ منظر دیکھ بھی سکتے ہیں کیونکہ اب اس کی تصویریں اور ویڈیوز عام ہیں۔ اب یوں ہے دوستو کہ چاند کی دوسری زیادہ چمکتی اور زیادہ ریگولیتھ، یعنی زیادہ لونر سوئل والی سائیڈ پر ہیلیم تھری بہت زیادہ ہے۔ یہ تو سب کو معلوم تھا، مگر اس سائیڈ پر کسی ے سپیس مشن کو کھبی نہیں اتارا تھا کیوں؟ کیونکہ یہ چیلنج قبول کرنا بہت ہی مشکل ٹاسک تھا۔ کیونکہ دوسری سائیڈ پر، یعنی فار سائیڈ آف دا مون پر زمین سے کمیونیکیشن کا نظام بنانا بہت پیچیدہ تھا۔ اس کے لیے الگ سے سیٹلائٹس کا پورا نظام بنانا پڑنا تھا۔ پھر وہاں سپیس مشینوں کی لینڈنگ کروانا بھی بہت مشکل تھا، کیونکہ وہاں نیویگیشن آسان نہیں تھی یعنی وہاں راستہ تلاش کرنا، مقامات تلاش کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ نقشہ بنانا، پیمائشیں کرنا سب کام بہت زیادہ پیچیدہ تھے۔ پھر کس جگہ پر لینڈنگ کرنا ہے اور کیسے زمینی اسٹیشن سے مسلسل مانیٹر کرنا ہے یہ بھی بہت چیلنجنگ تھا۔ اس کے بعد سب سے اہم یہ کہ فار سائیڈ آف دا مون پر سولر ونڈز بہت شدید ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے فار سائیڈ آف مون کے مشنز کی ٹکنالوجی کے تمام پرزے اور مشینیں نیر سائیڈ آف دا مون سے زیادہ بہتر بنانا پڑنا تھیں۔ اس کے لیے پھر ایک بار بہت زیادہ سپیس ریسرچ چاہیے تھی۔ مگر دوستو آپ جانیں کہ چین نے یہ سارے چیلنج عبور کیے اور جنوری دوہزار انیس میں سپیس مشن چنگ فور چاند کی فار سائیڈ پر کامیابی سے اتار دیا۔ اس لینڈنگ کو دنیا میں بہت پاپولرٹی تو نہیں ملی لیکن اصل میں سائنس کی تاریخ میں یہ ایک بڑا سنگ میل عبور ہو چکا تھا۔ ایک مائل سٹون اچیو کیا جا چکا تھا اور یہ چین نے کیا تھا۔ چین نے بھی اسے زیادہ شور شرابہ کیے بغیر عاجزی سے ٹویٹر پر پوسٹ کر دیا اور کلیم کیا کہ پہلی بار فار سائیڈ اف دا مون پر ہم پہنچ گئے ہیں اور یہ رہی دوسری سائیڈ کی تصویر اور انہوں نے کہا کہ یہاں ہم سے پہلے کوئی نہیں گیا۔ تو کیورئیس فیلوز چین، چاند پر بیس بنانے اور اسے ایکسپلور کرنے کے لیے یہ سب کر رہا ہے۔ تین سال سے فار سائیڈ آف دا مون، ہیلیم تھری سے رچ سرفیس کو ایکسپلور کر رہا ہے۔ اس کا مشن "چنگ فائیو" چاند سے سیمپلز بھی نیچے چائنیز لیبارٹریز میں لا کر انھیں ٹیسٹ کر رہا ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ چین اپنی پراگرس خفیہ رکھتا ہے سو ہم نہیں جانتے کہ وہ اپنی کوششوں میں وہ کتنا آگے جا چکا ہے۔ خفیہ پراگرس کی وجہ سے ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ چین چاند کے کس حصے پر مستقل بیس بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کہیں اسی سائیڈ پر تو نہیں جہاں امریکہ نے بیس بنانے کا اعلان کر رکھا ہے؟ جی ہاں دوستو امریکہ نے ساؤتھ پول کے قریب جہاں برف کی جھیلیں ہیں جہاں سے راکٹس کے لیے فیول لینا ہے اور اسٹراناؤٹس کے لیے آکسیجن لینا آسان ہے وہاں بیس بنانے کا اعلان امریکہ نے کر رکھا ہے۔ آپ کو یہ کہانی بھی سناتے ہیں۔ کہ امریکہ کیا کر رہا ہے چین کے بارے میں تو آپ جان چکے۔ دوستو امریکہ نے انیس سو اڑسٹھ سے سیوٹنی ٹو تک، چار سال میں چاند کے لیے نو مشنز بھیجے تھے۔ ان میں سے چھ کامیاب رہے اور بارہ انسانوں نے جو کہ تمام کے تمام امریکی تھے انھوں نے چاند پر سیر بھی کی۔ اس کے بعد اب امریکہ نے عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ٹونٹی ٹونٹی ٹو" میں پچھلے ہی سال آرٹیمس مِشن لانچ کر دیا تھا۔ اس مشن کا مقصد چاند کو ایک مستقل سپیس بیس، خلائی اڈا بنانا اور ایک بار پھر انسانوں کو چاند پر لے جانا اور واپس لاتے رہنا ہے۔ لیکن اس بار جو انسان جائیں گے ان میں پہلی بار ایک خاتون اور ایک پرسن آف کلر بھی شامل ہو گا۔ یہ سائنس دان یہاں وہ بیس تیار کریں گے جہاں سے سپیس مشنز پھر مارس اور آگے کی طرف جائیں گے۔ اسی لیے آرٹیمس مشن کا سلوگن بھی ناسا نے "فرام مون ٹو مارس" رکھا ہے چاند سے مریخ تک۔ یعنی بقول ناسا جو کچھ بھی مریخ پر کرنا ہے اسے ایک بار چاند پر کر کے ٹیسٹ کیا جائے گا۔ اس سلسلے کے مشن آرٹیمس کے تین فیزز کا پہلا فیز آرٹیمس ون مکمل ہو چکا ہے۔ آرٹیمس ون میں تجرباتی طور پر بغیر انسانوں کے اورین سپیس شٹل کو زمین سے چاند کے مدار میں بھیجا گیا تھا جو کہ کچھ دیر چکر لگا کر واپس آ گیا۔ یہ سب پچھلے سال دسمبر میں مکمل ہو چکا ہے۔ گیارہ دسمبر کو اورین سپیس کرافٹ چودہ لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کر کے چاند کے بارے میں تازہ ترین معلومات لے کر کلیفورنیا کے قریب پیسیفک اوشن میں کامیابی سے گرا لیا گیا تھا۔ ناسا کا کہنا تھا کہ اس سے ہمیں اگلے مشن میں انسانوں کو چاند پر بھیجنے میں بہت مدد ملے گی۔ تو یہ آرٹیمس ون تھا۔ اب آرٹیمس کا فیز ٹو آئے گا اب آرٹیمس کا فیز ٹو جو ہے اس کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ اس میں چاند کے گرد ایک گیٹ وے سیٹ اپ لگایا جائے گا۔ یعنی ایک سپیس اسٹیشن چاند کے گرد آربٹ میں مستقل گھومتا رہے گا۔ زمین سے وہ خلا باز جنھوں نے چاند پر اترنا ہے صرف وہ ایک راکٹ پر اس سپیس اسٹیشن پر پہنچیں گے۔ جبکہ یہاں سے انھیں چاند پر لینڈ کروانے کی فیسیلٹیز پہلے سے گیٹ وے پر موجود ہوں گی۔ وہ اسٹروناٹس گیٹ وے اسٹیشن پہنچنے کے بعد اندر ہی اندر اس حصے میں چلے جائیں گے جس نے چاند پر لینڈ کرنا ہے۔ یعنی لینڈر سپیس کرافٹ میں منتقل ہوجائیں گے۔ یہ حصہ گیٹ وے سے الگ ہو کر چاند پر لینڈ کر جائے گا اور اسٹرونائٹس کو ضروری مشینری کے ساتھ چاند پر چھوڑ کر واپس گیٹ وے اسٹیشن کے ساتھ جڑ جائے گا۔ نیچے روبوٹس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹم ورک کرتا رہے گا اور اسٹروناؤٹس بھی جب تک ضروری ہو یہاں رہیں گے اور جب ضروری نہ ہو اوپر گیٹ وے اسٹیشن پر چلے جائیں گے۔ جہاں سے انھیں زمین پر بھیجنے کے لیے پہلے سے فسیلیٹی اورین سپیس شپ کی شکل میں موجود ہو گی۔ اس پر اسٹراناؤٹس زمین کی طرف واپس آئیں گے۔ فضا میں داخل ہوتے ہی پچیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار اور ائر فرکشن کی وجہ سے ٹمپریچر پانچ ہزار ڈگری تک چلا جائے گا لیکن یہ پیراشوٹس کھول کر اپنی رفتار تین سو میل فی گھنٹہ تک کم کر لیں گے۔ پھر یہ آرٹیمس ون کے کامیاب پراجیکٹ کی طرح سمندر میں سپلیش ڈاؤن کر جائیں گے چھپاکے سے کود جائیں گے۔ اس میں اہم ترین بات یہ ہے دوستو کہ امریکی آرٹیمس مون ٹو مارس مشن میں گیٹ وے سیٹ مستقل کام کرتا رہے گا۔ جبکہ نیچے امریکی بیس بھی بنتی رہے گی اور کام کرتی رہے گی۔ جو کہ چاند کے ساؤتھ پول کے قریب ہو گی۔ آپ جان چکے ہیں کہ ساؤتھ پول میں لیکیوئیڈ ہائیڈروجن اور آکسیجن کا خزانہ موجود ہے۔ اسی پانی کو فیول کے لیے استعمال کرنا اسٹروناٹس کو سکھایا جا رہا ہے۔ پھر ایسے گھر بنانا جو چاند کی مٹی، مون ڈرٹ سے بنیں گے، ان کی ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے۔ ان گھروں کے لیے مستقل انرجی چاہیے ہو گی تا کہ انھیں روشن اور انسانی جسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈا رکھا جا سکے اس کیلئے مستقل انرجی کی ایسی سورس چاہیے جو کہ چاند پر لمبے عرصے تک کام کرتی رہے۔ اب ظاہر ہے یہ ایک انوویشن ہی کرنا پڑے گی۔ ناسا کے لیے یہ ایک ایسا چیلنج ہےجو اس سے پہلے اس نے فیس نہیں کیا کیونکہ اکاون سال پہلے جو آخری اپولو سیونٹین مشن چاند پر گیا تھا تو اس کے خلا باز صرف تین دن تک چاند پر رہے تھے اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے چاند کی سطح پر رہے تھے۔ اتنے وقت کے لیے انرجی اور فیول ان کے پاس تھا وہ زمین سے لے کر گئے تھے۔ مگر اب جب کہ مستقل رہنے کے لیے، لمبے عرصے کے لیے چاند پر جانا ہو گا تو امریکہ نے اپنے مخصوص امریکن ڈریم کو جاگا لیا ہے وہ دنیا بھر سے ذہین لوگوں کو اٹریکٹ کررہا ہے۔ اور بزنس وینچرز کے لیے بھی لائسنس دئیے جا رہے ہیں۔ ابھی پچھلے سال جون میں ناسا نے پانچ پانچ ملین ڈالرز کے کنٹریکٹس تین کمپنیز کو ایوارڈ کیے ہیں۔ ان تینوں نے چھ سے سات امریکی گھروں کے لیے نیوکلیر پاور کا ایسا پراجیکٹ بنانا ہے جو چاند پر دس سال تک انرجی فراہم کرتا رہے۔ پھر چین تو تنہا ہی مون بیس بنا رہا ہے لیکن امریکہ نے اپنے ساتھ کئی عالمی طاقتوں اور معاشی طور پر خوشحال ملکوں اور ذہین لوگوں کو شامل کرنے کا آغاز کر رکھا ہے۔ تئیس ملکوں نے اب تک آرٹیمس اکارڈ سائن کر کے امریکی کوشش کو جوائن بھی کر لیا ہے۔ گو کہ یہ مزید ملکوں کے لیے بھی اوپن ہے کوئی بھی اسے جوائن کر سکتا ہے۔ اس میں بھی وہی شرائط ہیں جو کہ نائنٹین سکسٹی سیون والے اوٹر سپیس ٹریٹی میں لکھی تھیں۔ یعنی خلائی تحقیق پر امن مقاصد کے لیے ہو گی ٹرانسپیرنٹ ہو گی یعنی جو کچھ کیا جائے گا اعلانیہ کیا جائے گا چاند پر جو تاریخی مقامات ہیں یعنی نیل آرمسٹرانگ کے پاؤں کا نشان اور امریکی جھنڈا وغیرہ ان کی ایسے ہی حفاظت کی جائے گی جیسا کہ زمین پر قدیم مقامات کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اور پھر یہ کہ جو کچھ ریسرچ چاند پر ہو گی اسے پبلک کیا جائے گا۔ چھپا کر نہیں رکھا جائے گا۔ اس اکارڈ میں امریکہ نے چین کو شامل نہیں کیا۔ روس بھی اس میں شامل نہیں ہے۔ حالانکہ نائنٹین سکسٹی سیون کی اوٹر سپیس ٹریٹی میں یہ دونوں شامل تھے۔ چین کو امریکہ نے انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن سے بھی باہر رکھا ہے۔ ان سب نے چین کو مایوس نہیں کیا بلکہ وہ اکیلا ہی خاموشی سے بڑے بڑے مائل سٹونز اچیو کرتا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے عین ممکن ہے کہ جب امریکہ چاند کے ساؤتھ پول کے پاس اپنی مستقل بیس بنا رہا ہو تو چین بھی اسی جگہ کو سب سے اہم سمجھتے ہوئے اپنی بیس بھی یہیں بنانا شروع کر دے۔ کیونکہ کسی بھی عالمی قانون کے مطابق چاند کی کوئی جگہ بلکہ اوٹر سپیس کی کوئی بھی جگہ کسی بھی نیشن کی کسی بھی ملک کی ملکیت ہرگز نہیں۔ اور یہ بات صرف میرا تجزیہ نہیں، ناسا کے بیشتر سائنسدان اور ڈائریکٹرز روز یہی بات کرتے ہیں۔ وہ مسلسل اپنے کنسرنز اپنے خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔ کہ ہمیں چین سے خبردار رہنا چاہیے اور اسے ہر وقت دیکھنا چاہیے۔ ان کے یہ بیانات امریکہ کے چائنیز سپیس مشنز سے خوفزدہ ہونے کا پتا بھی دے رہے ہیں۔ یہ سب ریفرنسز دوستو کھل کر بتا رہے ہیں کہ چاند پر ملکیت کی لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی کہانیاں ہیں جو ہم آپ سے شیر کرتے رہیں گے لیکن آپ کو بتائیں کہ سپیس ریس بھلے مشکل مقام پر آ گئی ہے لیکن یہ اتنی بری چیز بھی نہیں۔ کیونکہ سپیس ٹکنالوجیز ہی دراصل وہ ٹکنالوجی ہے جو پچھلی ایک صدی سے قوموں کو سب سے زیادہ ترقی کرنے میں مدد بھی دے رہی ہے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ سپیس کے لیے جو ٹکنالوجیز بنانا پڑتی ہیں وہ ناقابل یقین حد تک مشکل اور مہنگی ہوتی ہیں۔ لیکن بعد میں وہی سائنس، زمین پر عام استعمال ہوتی ہے اور اسے ڈیویلپ کرنے والا ملک ہر لحاظ سے فائدے میں رہتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ یہ جو ویکیوم کلینر ہے ، یہ سب سے پہلے ناسا کے چاند پر جانے والے اپولو مشنز میں خلائی مشینیوں کی صفائی کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ تا کہ لونر ڈسٹ، چاند کی مٹی سے مشینوں کو بچایا جا سکے۔ لیکن آپ آج اسے ہر روز نجانے کہاں کہاں استعمال کرتے ہیں کبھی آپ کو خیال بھی نہیں آیا ہو گا کہ یہ شروع میں سپیس ٹکنالوجی تھی۔ پھر یہ جو آپ کہیں بھی جانے کے لیے آسانی سے سیٹلائیٹ میپس، نیویگیشن سسٹمز استعمال کرتے ہیں یہ بھی پہلی بار امریکہ نے خلائی تحقیق اور سیکیورٹی کے لیے بنایا تھا آج دنیا کا کوئی سفر اس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ پھر یہ پانی فلٹر کرنے والا ریورس اوسموسس سسٹم بھی پہلے ناسا نے خلا میں اسٹروناؤٹس کے لیے تیار کیا تھا۔ یہ جو سولر پاور سے ہم اپنے گھر آج روشن کر رہے ہیں، یہ بھی سب سے پہلے خلائی جہازوں کی انرجی کے لیے ڈیویلپ کی گئی ٹکنالوجی ہی تھی۔ اسی طرح کم انرجری سے چلنے والی ایل ای ڈیز آرٹیفیشل ہارٹ پمپ دل کو دھڑکنے میں مدد دینے والا آلہ کارڈلیس ٹولز، سکریچ لیس گلاسز اور فروزن فوڈز، ٹھنڈی کر کے خشک خوراک ذخیرہ کرنے کے یہ سارے کانسیپٹس یہ تمام آئیڈیاز سپیس سائنس سے ہی پہلی بار شروع ہوئے تھے۔ ہاں شروع میں یہ بہت مہنگے ہوتے ہیں لیکن پھر وقت کے ساتھ انھیں سستا کرنا بھی سیکھ لیا جاتا ہے۔ بات کا مقصد یہ ہے کہ جو بھی ملک اور ادارہ خلائی تحقیق میں سپیس سائنسس میں آگے ہو گا وہی سائنس کے میدان میں دنیا کو لیڈ بھی کر رہا ہو گا۔ اسی کی فوج سب سے تگڑی ہو گی اور وہی اکانومی میں ایکسپورٹس میں بھی سب سے آگے ہو گا۔ یہ جو یو اے ای نے سپیس مشنز اور مریخ اور چاند پر جانے کے پروگرامز شروع کر دئیے ہیں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیوں ہیں؟ صرف دکھاوے کے لیے؟ جی نہیں۔ وہ اپنے قوم کو اس ویژن پر لے جا رہے ہیں جہاں کی سوچ رکھتے ہوئے وہ کم رفتار سے بھی چلیں تو ان ملکوں سے بہت آگے نکل جائیں گے جنھوں نے اپنا ویژن ہی چھوٹا رکھا ہوا ہے۔ ہمیں ان سب سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ٹکنالوجیز سے دماغ کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ ذہن کو بچانے کی ضرورت ہے ورنہ یاد رکھیں، ہماری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ دوستو یہ چاند کے وسائل پر قبضے کی گریٹ گیم کی کہانی تھی۔ ہم نے گریٹ گیم کے نام سے ایک مکمل الگ سیریز بھی بنا رکھی ہے، جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے چین، روس اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ یہ کیسے جاسوسی کرتے ہیں کیسے ایک دوسرے کی ٹکنالوجیز چراتے ہیں دوسرے ملکوں میں ایک دوسرے کے جاسوسوں کو کیسے زہر دیتے ہیں یہ سب آپ اس گریٹ گیم سیریز میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں دیکھئے پہیے کی ایجاد سے پہلےکا شہر کیا تھا اور یہ رہی کہانی کہ کیا انسان بندر سے بنا تھا؟

2023-03-14 17:38

Show Video

Other news